اسلام نے شفقت اور محبت میں سب کے حقوق بیان کیے ہیں حتیٰ کہ جانوروں کے حقوق بھی واضح کیے۔ عبقری مسلم اور غیرمسلم سب کے حقوق کا پاسبان ہے۔
صلاح الدین ایوبی کی غیرمسلموں سے رواداری و فراخ دلی: صلاح الدین ایوبی جب فاتح بن کر بیت المقدس میں داخل ہوا ‘اس نے اپنی رواداری‘ فراخ دلی اور انسانی محبت کا جو ثبوت دیا اس کی تعریف یورپین مورخین نے بھی کی ہے۔ ایڈورڈگبن لکھتا ہے کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ترک فاتح کی رحم دلی کی تعریف کی جائے۔ اس نے مفتوح کو کسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہونے نہیں دیا ۔وہ ان سے بھاری رقمیں وصول کرسکتا تھا لیکن اس نے تیس ہزار کی رقم لے کر ستر ہزار قیدیوں کو رہا کیا۔ دو تین ہزار کو تو اس نے رحم کھا کر یونہی چھوڑ دیا۔ اس طرح قیدیوں کی تعداد گھٹ کر چودہ سے گیارہ ہزار رہ گئی تھی جب یروشلم کی ملکہ اس کے سامنے آئی تو اس نے نہ صرف انتہائی مہربانی سے باتیں کیں بلکہ اپنی نظروں کو جھکایااور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایڈورڈگبن مزید لکھتا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جنگ کے یتیموں اور بیواؤں میں خیرات تقسیم کی۔ جنگ کے زخمیوں کیلئے ہر طرح کی سہولیات فراہم کیں۔ وہ قرآن کے دشمنوں کے ساتھ اس طرح کی سختی کے ساتھ حق بجانب تھا مگر اس نے جس فیاضانہ رحم دلی کا ثبوت دیا وہ نہ صرف تعریف اور تحسین بلکہ محبت کیے جانے کا مستحق ہے۔(تفصیل کیلئے ایڈوڈگبن کی ہسٹری آف دی ڈکلائن اینڈ فال آف دی رومن امپائر جلد نمبر6 صفحہ نمبر 499 تا 500) صلاح الدین اور عیسائی محکوم: اسٹینلی لین پول نے اپنی کتاب صلاح الدین میں لکھا ہے جب یروشلم مسلمانوں کے حوالے کیا جارہا تھا تو سلطان کی فوج اور معزز افراد اور افسران نے گلی کوچوں میں انتظام قائم کررکھا تھا ۔یہ سپاہی اور افسر ہر قسم کی زیادتی کو روکتے تھے اس کا نتیجہ تھا کہ کسی عیسائی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، شہر سے باہر جانے کے تمام راستوں پر سلطان کا پہرہ تھا اورایک نہایت معتبر امیر باب داؤد پر متعین تھا تاکہ شہر سے باہر آنے جانےوالے کو بغیر روک ٹوک کے آنے دیا جائے۔ (بحوالہ: صلاح الدین ایوبی از اسٹینلی لین پول صفحہ نمبر 202) مغل بادشاہوں کا غیرمسلموں سے حسن سلوک: پروفیسر رام پرشاد گھوسلا اپنی کتاب مغل کنگ شپ اینڈ نوبی لیٹی میں لکھتے ہیں: مغلوں کے زمانے میں عدل و انصاف کا جو اہتمام ہوتا اور ان کی جو مذہبی رواداری کی پالیسی تھی اس سے عوام ہمیشہ مطمئن رہی ‘اسلامی ریاست میںسیاست اور مذہب کا گہرا لگاؤ رہا لیکن مغلوں کی مذہبی رواداری اور لگاؤ کی وجہ سے کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوا۔ کسی زمانے میں بھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ حکمرانوں کا مذہب محکوموں کا بھی مذہب بنا دیا جائے۔ حتیٰ کہ اورنگزیب نے حصول ملازمت کیلئے اسلام کی شرط نہیں رکھی۔بادشاہ مذہب اسلام کا محافظ ضرور سمجھا جاتا لیکن اس نے کبھی غیرمسلم رعایا کی عقائد پر پابندی نہیں ڈالی چاہے وہ عیسائی ہوں یہودی ہوں یا ہندو۔ ( صفحہ نمبر 297 ایڈیشن 1934ء) مغلوں نے ہمیشہ غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی:پرمتھا سرن نے اپنی کتاب پرونشل گورنمنٹز انڈر دی مغلز میں لکھا ہے کہ مغلوں کی حکومت عروج کے زمانے میں دنیا کی شاندار حکومتوں میں سے تھی لیکن انہوں نے غیرمسلموں کے ساتھ انسان کے جو تقاضے پیش کیے وہ رہتی دنیا تک یاد کیے جائیں گے۔ انہوں نے غیرمسلموں کے ساتھ جبر نہیں کیا ان کے ساتھ اور ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ ہمیشہ انصاف کا تقاضا کیا۔ غیرمسلم ، مسلم فسادات مغلیہ دور میں نہ لکھے گئے‘ نہ پڑھے گئے نہ سنے گئے:سرجون نے اپنی ہسٹری آف سی پوائی وار میں لکھا ہے کہ بغٖاوت کے نام سے مجرموں کے ساتھ عورتیں اور بچے ہلاک کیے جارہے تھے اور ان کو قصداً پھانسی نہیں دی جاتی بلکہ ان کے گاؤں میں ہی آگ میں ڈال دئیے جاتے یا ان کو گولی ماردی جاتی۔ انگریز یہ فخر کرنے میں نہیں ہچکچاتے کہ انہوں نے کسی کو نہیں چھوڑا ہلاک کرنا ان کا مشغلہ تھا، تین مہینے تک لاشوں کی آٹھ گاڑیاں صبح سے شام تک ان مردوں کی لاتے جو راہوں اور بازاروں میں لٹکی دکھائی دیتیں۔ سرجون آگے نہایت افسوس سے لکھتا ہے یہ تو ان متشدد لوگوں کا رویہ تھا جو انہوں نے 1857ء میں کیا۔ لیکن اگر میں مغل حکمرانوں کی عروج کی زندگی دیکھوں تو انہوں نے ہمیشہ غیرمسلموں کی زندگی کے ہر گوشے کو سنوارا انہیں عزت دی، وقار اور مقام دیا اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کو انہوں نے حقوق بھی دئیے جگہ بھی دی تحفظ بھی دیا اور پھلنے پھیلنے اور پھولنے کا بھرپور موقع دیا حتیٰ کہ سرجون لکھتا ہے کہ ہندو اور مسلم فسادات مغلیہ دور میں نہ کہیں پڑھے گئے‘ نہ کہیں سنے گئے۔ ( بحوالہ: رائس آف دی کرسچین پاور اِن انڈیا از، کے ڈی باسوج 5، صفحہ نمبر 285) انسائیکلوپیڈیا آف بری ٹانیکا کی تصدیق: انسائیکالوپیڈیا آف بری ٹانیکا گیارہ ایڈیشن جلد نمبر دس میں لکھا ہے کہ یورپ کے تمام اسکالر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان جہاں جہاں بھی حکمران رہے انہوں نے انصاف عدل اور محبت کے تقاضوں کو قائم رکھا اپنے محکوم چاہے وہ ان کے مسلمان ہوں یا غیرمسلم سب کو اور سب کے حقوق کو وہی تحفظ دیا جو اسلام نے انہیں کہا۔ غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی انتہا:سرولنٹین چیرول نے اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کی طرح ترکوں کی بہت بڑی ہسٹری کا ایک شاہکار جمع کیا ہے اس نے لارڈایورسلے کے ساتھ جودی ٹرکش امپائر لکھی ہے اس کے آخری باب میں ترکوں کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تین سو برس تک دس سلاطین اور ایک وزیراعظم سوکولی نے اس سلطنت کی توسیع میں حصہ لیا ۔اس مدت میں اس کو مسلسل فتوحات اور کامرانیاں حاصل ہوئیں۔ اس عرصے میں اس کو چودہ سو دو میں تیمور اور منگول جیسے حکمران ملے جنگیں بھی ہوئیں فتوحات بھی ہوئیں شکستیں بھی ہوئیں لیکن ان سب میں ترک حکمرانوں نے ایک بات جو خاص طور پر کی وہ یہ کی کہ غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک‘ مذہبی رواداری اور درگزر کی نہایت انتہا کی۔ آج کے سلاطین کیلئے ان کیلئے بہت بڑی نشانیاں ہیں۔ اے کاش کوئی ان کو پڑھ لیتا۔ (صفحہ نمبر 426، ایڈیشن 1921ء) مسلم حکمران غیرمسلم عبادت گاہوں کے تحفظ کے خیرخواہ: لارڈ ایورسلے نے سلطان عبدالمجید جو ترک حکمران تھا اور اس کی حکمرانی سعودی عرب سمیت تمام خلیج پر تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے اس میں جبلی طور پر بہت سی قوتیں اور خوبیاں تھیں وہ دولت عثمانیہ میں تمام حکمرانوں میں سب سے زیادہ عظیم انسان تھا ان خوبیوںکے ساتھ ساتھ ایک خوبی یہ بھی تھی کہ غیرمسلموں کو کچلنے ان کیلئے سخت قانون بنانے اور ان کو کڑی سزائیں دینے کا مزاج ہرگز نہیں تھا بلکہ وہ ان کے حقوق اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ کا ہمیشہ خیرخواہ رہا۔ ( بحوالہ ترکش امپائر ص 313) (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں